A tribute to Amjad Islam Amjad

 

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل  گئ                            

ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺑﺎﺕ
ﻣﺮﯼ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ
ﺟﻮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﺎ
ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﺍﻥ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ

ﺑﭽﮭﮍﺍ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﺍﺩﺍ
ﺳﮯ ﮐﮧ ﺭُﺕ ﮨﯽ ﺑﺪﻝ
ﮔﺌﯽ
ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﺳﺎﺭ
ﺷﮩﺮ ﮐﻮ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﮐﺮﮔﯿﺎ

ﺩﻟﭽﺴﭗ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﮐﻞ ﺍِﮎ ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻭﺳﺖ
ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻔﺎﺩ ﭘﺮ ﻣﺠﮭﮯ
ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮﮔﯿﺎ

ﮐﺘﻨﯽ ﺳﺪﮬﺮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﮨﺎﮞ ﻭﮦ ﺟﻔﺎ ﺳﮯ ﻣﺠﮫ
ﭘﮧ ﺗﻮ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ

ﺧﺎﻟﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ
ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ جان
وہ شخص آخر مجھے بے جان کر گیا         

                                               از خالد شریف

 

آسمان سے زمین تک

آسمان سے زمین تک

چاروں طرف برف ہی برف تھی۔ لگتا تھا کہ چا ند ژمین پراتر آیا ہے۔سارا نےگول چکر کے پاس گاڑی کی رفتار کو آھستہ کر دیا۔ مالمواس ملک کا شہرہے جہاں پر  ٹریفک پولیس دنیا کا بہترین  ادارہ سمجھا جاتا ہے۔سارا نے دو سال پہلے سویڈن سے  لاءنسس حاصل کیا تھا۔اس کو اپنےبھائ کو ائرپورٹ سے پک کرنا ہے ۔ پارکنگ لاٹ میں پہنچ کر پتہ چلا کےجہاذ ایک گھنٹہ تاخیر کاشکار ہے۔ اسکرین پر گاڑیوں کےنمبراور ٹرمینل پر آنے والے جہازوں کی معلومات آسانی سے دیکھی جا سکتی ھیں۔ سارا کی نظریں صفائی کا انتظام دے کرکھلی کی کھلی رہ گئی-دولوگ الیکٹرک سیڑھیوں کی صفائی کر رہے تھے-جبکہ تین سے چار افراد مشینوں کے ذریعے سڑک کی صفائی کر رہے تھے-صفائی نصف ایمان ہے,سارا نے سوچا کہ اس ملک میں رہنے والوں کے ایمان ہم سے زیادہ اچھے ہیں-کم ازکم یہاں پررہنےوالےلوگ قدرت اور فطرت کا احترام کرتے ہیں-اچانک اس کی نظر آسمان پر اڑتے ہوئے جہازوں پر پڑی-یکے بعد دیگرے-کی جہاز اڑنے لگے-سارا کا ذہن دور خلاؤں میں کھو گیا-اس کی نظروں کے سامنےاس کی زندگی کے کئی مناظر فلم کی شکل میں چلنے لگے-اس کو یاد آرہا ہے کہ ٹھیک 6 سال پہلے سارا نے نویں جماعت کا امتحان پاس کیا تھا-اس نے پورے اسکول میں ٹاپ کیا تھا-رزلٹ حاصل کرنے کے بعد وہ سہیلیوں کے ہمراہ گھر جانے کے لیے نکلیں-مختلف پگڈنڈیوں کے راستے ہوتے ہوئے وہ ٹیوب ویل کے پاس پہنچی-

سارا سے اپنی خوشیوں کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا-ٹیوب ویل سے پانی پیتے ہوئے اس کی نگاہیں پھر آسمان کی طرف گئی-پرندے خلا میں اڑ رہے تھے سارا نے دوسری نظر اپنے رزلٹ کارڈ پر ڈالی-اسے یقین تھا کہ وہ دن دور نہیں جب وہ بھی اڑنا شروع کر دے گی-اڑان کا تصور آتے ہی اس نے ہرنی کی طرح بھاگنا شروع کر دیا-

گھر پہنچتے ہی ماں کے گلے لگ گئی -ماں کے گلے لگتے ہیں آنسووں کو سنبھالنا مشکل ہو گیا-سارا کو اندازہ تھا کہ اس کی کامیابی کے پیچھے اس کے ماں باپ کی بہت جدوجہد ہے-سارا کا باپ کافی عرصے سے اسپین میں کام کر رہا تھاجب کہ سارا کی فیملی پاکستان میں تھی-گزشتہ چھ سالوں سے اس کے والد سویڈن میں جاب کر رہے تھے-سارا کی زندگی کا سب سے بڑا خواب پائلٹ بننا تھاوہ ریاضی اور سائنس کے تمام مضامین میں بہت قابل تھی-اس کو زندگی میں رینگنے سے نفرت تھی مگر اڑنا اس کا جنون تھا-سکول کے رزلٹ کے ساتھ ساتھ اس کو ایک اور اچھی خبر بھی ملی-خبر یہ تھی کہ سارا کی پوری فیملی کو سویڈن ویزا مل چکا تھا-جب قسمت مہربان ہو جائے تو پھر کامیابیوں کی کوئی جسٹیفیکیشن نہیں ہوتی-

ایک دم سے اپنا گھر بار بیچنا, سارا سامان بیچنا پاسپورٹ بنوانا اور باہر جانے کی تیاری کرنا کسی خواب سے کم نہ تھا-سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ خواب اور حقیقت کا فرق معلوم نہ ہوتا تھا-اس  ملک میں آ کر زندگی کا مفہوم مقصد اور انداز بدل گیا تھا-اب زندگی کا سب سے بڑا مقصد اور چیلنج ایک نئی زبان سیکھنا تھا-خود کو ایک نئے کلچر میں ڈھالنا اپنی شخصیت اور سوچنے کے انداز کو نئے سسٹم میں برقرار رکھنا بھی ایک چیلنج تھا-سارا کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے تمام اساتذہ بہت اچھے تھے-کبھی کبھار انسان اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنے کے چکر میں معاشرے کی اجتماعیت کو نظر انداز کر دیتا ہےاور کبھی کبھار معاشرے میں اپنی انفرادیت کو کھو دیتا ہے-لیکن اس کے سکول نے اس کو توازن قائم کرنے کا ہنر سکھایا-سارا کو پائلٹ بننے کا جنون تھا لہذا ہر وقت انفارمیشن اکٹھی کرتی رہتی-بدقسمتی سے سارا کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ پائلٹ کے پروگرام میں نہیں جا سکتی تھی-اسکول کے قوانین کے مطابق سارا اٹھارہ سال سے زیادہ ہونے کی وجہ سے پائلٹ پروگرام میں نہیں جا سکتی تھی-پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری اور دن رات کر کے  سویڈش زبان سیکھی-اس کو لگتا تھا کہ وہ تعلیم بالغان کے سکول میں جاکر اپنی تمام میرٹ کو حاصل کر لے گی اور پائلٹ بن جائے گی-اڑان سے اس عشق اسے کسی اور طرف سوچنے نہیں دیتا تھا-لیکن پھر معاشی حالات بدلتے گئے-اس کے باپ کی تنخواہ ان کے اخراجات کے لیے کافی نہیں تھی-مغربی قوانین کے تحت ہر حال میں اپنا ٹیکس ادا کرنا تھا-ٹیکس ادا نہ کرنے کی صورت میں انہیں واپس پاکستان جانا پڑتا-یہ سوچ کر پورے گھر میں بیچینی تھی- کیونکہ پاکستان میں نہ کوئی گھر بچا تھا اور نہ کاروبار- مزید یہ کہ کئی سال یہاں سویڈش زبان گزارنے کے چکر میں  گزار دیے تھے-عمر کی وجہ سے پاکستان کے بھی کالجوں میں داخلہ مشکل ہو گیا تھا-پھر ایک وقت آیا جب سارا کو اڑنے کا خواب چھوڑنا پڑااور اس نے زمین پر رینگنے کا فیصلہ کرلیا-

سارا کی نظریں تو گاڑی کی ونڈ سکرین پر تھی مگر دماغ کسی اور دنیا میں-اس کی آنکھوں سے برسات شروع ہو گئی جب اس کو اپنا پہلا دن ایک ٹیکسی سکول کا یاد آیا-سات ماہ کے مستقل جدوجہد کے بعد سارا کو ٹیکسی کا لائسنس مل گیا-اب وہ دو سال سے ٹیکسی چلا رہی ہے مگر اس نے خواب دیکھنے بند کر دیے ہیں-نہ تو وہ کوئی خواب دیکھتی ہے اور نہ ہی اس کو ماضی کا کوئی خواب یاد آتا ہے-جس دن اس کو لائسنس ملا اس نے آسمان کی طرف نگاہ بھر کر دیکھا مگر اسے دور تک کوئی ہوائی جہاز نظر نہ آیا تو پھر اس نے اگلی نگاہ اپنی ٹیکسی پر ڈالی-اس نے دل پر صبر کا بھاری پتھر رکھ  دیا تھا-پارکنگ میں بھائی کا انتظار کرتے کرتے اسے احساس ہوا کہ اس نے دو سال کسی  مشین کی طرح گزارے ہیں-اس ایک لمحے نےساراکو اس کا آسمان سے زمین تک کا سفر  یاد کرا دیا -درد کی ایک لہر اس کے دل اور دماغ میں ایک ہی وقت میں گھومنے لگی-خوابوں کا مرنا بھی کسی انسان کے مرنے سے کم نہیں ہوتا-سارا نے فیس بک پر اپنے سب پاکستانی دوستوں کو بلاک کر دیا تھا-وہ اپنے خوابوں کی توہین برداشت نہیں کر سکتی تھی-کہاں فلک اور کہاں زمین-

بھائی کو گھرڈراپ کرنے کے بعد اس کو اپنی سواری اٹھانی تھی-اتفاق سے اس کی اگلی سواری کو ائرپورٹ پر اترنا تھا-سارہ کا موڈ اچھا نہیں تھا لہذا اس نےمسافرکوئی بات نہیں کی-اپنی سواری کو اتارنے کے بعد اس نے گاڑی کو دھونے کا سوچا-اچانک اسے  گاڑی کی پچھلی سیٹ پر  کچھ کاغذ نظر آئے-اس کو لگا کہ اس کا پسنجر کاغذ گاڑی میں بھول گیا ہے- اچانکسارا کی آنکھیں چمکنے لگیں-کیونکہ اس کاغذ میں پیراگلائیڈنگ اسکول کی انفارمیشن تھی-اس نے اپنی آنکھوں کو رگڑا اور کاغذوں کو دوبارہ پڑھا-پیراگلائیڈنگ اسکول گرمیوں میں ایک کورس شروع کر رہا تھا جسے سارا آرام سے جوائن کر سکتی تھی-وقت اور زندگی میں اسے اڑنے کے خواب دیکھنے کی اجازت دے دی تھی.اب وہ زمین پر رینگنے اور آسمانوں میں اڑان دونوں میں مہارت حاصل کر لے گی-






Is life a series of inspired follies

My first satirical comic writing seems to be " an ounce of sour ,in a pound of sweets.  Sitting on my favourite sofa, I am just thinking about “Is life a series of inspired  follies? Once ,George Bernard Shaw quoted ," What is life but a series of inspired follies". Applying this quotation in the context of different cultures, will give you a classy entertainment.First of all, nobody in my culture is ready  to accept that he or she may commit any type of follies ever.Moreover, the allegation of the “Series of follies “ would be an honour-shame matter for them because they all are die heart fans of Aristotle and Hakeem Luqman . They have already decided since their existence in their mothers’ wombs that they can never be foolish.Nobody can challenge their unseen wisdom yet they never believe in the solution of any problem. For example,One of my friend in Pakistan , always gets angry with me when I find a solution for her problems but she loves me if I sit with her and shed tears in a joint  digital meeting .It might be possible that if you point out someone's follies , you would face a series of foolish arguments about their unused wisdom. Well! Have you ever imagined ,"what would happen if we pertain this quotation in a Nordic society"?  Nordic people will accept this reality with a lots of “ifs and buts” . You may hear two words at the same time i.e. “ Jaaa! men Nej”  or “ Nej men ju” eller “ både och”. They will give you so much serious , logical , paradoxical and philosophical justifications for their “series of follies“ that the taste of foolishness will become holistic and academic. Life  is bewildering  mixture of agreeable and disagreeable things. Let’s own and enjoy the results of our “ series of follies” as we have no other choice.  Roohi Seemab :20230111

Seminar Rapport

 

I just attended my first seminar of 2023 entitled “Mental Health awareness Seminar  for Pakistani Community with Dr Afzal Javed , The President of World Psychiatric Association, Dr Zahoor Ahmed ,Honorable Ambassador of Pakistan  and Dr Arif KISANA , Chairman AKHUWAT, Sweden. Creating awareness  in a Community where talking about the causes and treatments of Mental health is just like breaking a Taboo of society., is quite difficult. Dr KISANA deserves an applause for arranging this seminar with  the expertise in this domain .Dr Afzal Javeed has served on the board of Royal College Psychiatrists , UK and World Psychiatric Association . He has published 8 books and  150 scientific papers and monographs on Psychiatry. Dr Afzal elucidated  the common motives and grounds of mental and psychological disorders and what are the differences between mental disorders and learning disorders. Dr Afzal s’view about the differences between  the “Depression as an expression” and “ Depression as illness” was the most stimulating  argument. Learning about the genetic and biological factors as internal factors and psychosocial and cross culture issues as external factors  along with the Pros and Cons of anxiety  was a wonderful experience for the common house- wives of the Pakistani Community. Dr. Afzal reveals the new and upcoming researches that tell us how our gens , Proteins and different chemicals in our brains may effect our mental health and how can we find solutions and precautionary measurements to control over our Psychosomatic and Somatic Psycho diseases.Dr Zahoor Ahmed , Ambassador of Pakistan Who himself is a doctor by education , acquainted the audience how can they seek help and guidance among the community and outside the community by consulting their doctors and health organisations and how can counselling , CBT and Talking therapies can heal them .A huge debate was generated about the manipulations of the rights and dignity of people , suffering from minor or serious mental health issues. The most cheery information which heals us ,is that Mental hospitals and fountain houses are loosing their strength because of modern therapies and counselling. The question about the “ Stigma removal" and arranging of such seminars in community on regular basis still exist in the minds of audience.                                         Roohi Seemab                                                                                                                                                                                     20231106